۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
1

حوزہ/ امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا جس میں فلسطین کی اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں ریاست فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی قرارداد کے حق میں بارہ ووٹ پڑے جبکہ دو ارکان برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ امریکی ویٹو کے بعد اقوام متحدہ میں فلسطین کی باقاعدہ رکنیت کی قرارداد اب جنرل اسمبلی میں رائے شماری کے لیے پیش نہیں کی جا سکے گی۔

ریاست فلسطین کو اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت دینے کی قرارداد سلامتی کونسل میں الجزائر کی طرف سے پیش کی گئی تھی، قرارداد کا مسودہ سلامتی کونسل کی تاریخ کی مختصر ترین قراردادوں میں سے ایک تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ سلامتی کونسل اقوام متحدہ کی رکنیت کی ریاست فلسطین کی درخواست کا جائزہ لینے کے بعد جنرل اسمبلی کو سفارش کرتی ہے کہ وہ اسے منظور کرے۔

قرارداد پیش کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں الجزائر کے مستقل مندوب عمار بن جامع کا کہنا تھا کہ فلسطین کو مستقل رکنیت دینے سے طویل ناانصافی کا خاتمہ ہوگا اور اس سے یہ واضح پیغام جائے گا کہ عالمی برادری فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔

قرارداد کے حق میں روس، چین، فرانس، الجزائر، مالٹا، موزمبیق، گیانا، ایکواڈور، جاپان، جنوبی کوریا، سری لیون، اور سلوینیا نے ووٹ دیا۔

پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں کسی بھی قرارداد کی منظوری کے لیے کم از کم نو ووٹ درکار ہوتے ہیں جبکہ اسے پانچ مستقل ارکان امریکہ، روس، برطانیہ، چین، اور فرانس میں سے کسی ایک کی بھی مخالفت (ویٹو) کا سامنا بھی نہیں ہونا چاہیے۔

فلسطین کو اقوام متحدہ میں 'مستقل مشاہدہ کار ریاست' کا درجہ حاصل ہے۔ اس حیثیت سے وہ ادارے کے تمام اجلاسوں میں شرکت کر سکتا ہے لیکن اسے کسی قرارداد پر ووٹ دینے اور سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی اور اس کی چھ مرکزی کمیٹیوں میں ہونے والی فیصلہ سازی میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔

2 اپریل 2024 کو فلسطین نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ ادارے کی مکمل رکنیت کے لیے اس کی درخواست پر دوبارہ غور کیا جائے جو ابتداً 2011 میں جمع کرائی گئی تھی۔

رواں مہینے یہ خط موصول ہونے کے بعد سیکرٹری جنرل نے اسے سلامتی کونسل کو بھیج دیا جس نے 8 اپریل کو کھلے اجلاس میں اس پر بات چیت کی۔

ریاست فلسطین کی باقاعدہ رکنیت کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد سلامتی کونسل میں اپنے خطاب میں امریکی نائب مستقل مندوب رابرٹ ووڈ کا کہنا تھا کہ قرارداد ویٹو کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ فلسطینی ریاست کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کا ان کا ملک فلسطینی اتھارٹی کو ریاست کا درجہ حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ اصلاحات کا کہتا آ رہا ہے اور دوسرا حماس غزہ میں اثرورسوخ رکھتی ہے جو کہ قرارداد کے مطابق فلسطینی ریاست کا حصہ ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندہ ویزلے نبینزیا نے اپنے خطاب میں کہا کہ غزہ کے موجودہ بحران کے دوران یہ پانچواں موقع ہے کہ امریکہ سلامتی کونسل میں قراردادوں کو ویٹو کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کا ویٹو ثابت کرتا ہے کہ امریکہ کی نظر میں فلسطینوں کو علیحدہ ریاست کا حق نہیں ملنا چاہیے۔ روسی سفیر کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کی غالب اکثریت فلسطینی ریاست اور اس کی اقوام متحدہ میں باقاعدہ رکنیت کے حق میں ہے اور امریکہ اس حوالے سے تنہائی کا شکار ہے۔

چین کے سفیر فو کانگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت کا فلسطینی خواب آج پھر چکناچور ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تیرہ سالوں میں فلسطینی علاقوں پر جاری قبضوں کی وجہ سے صورتحال بدل چکی ہے اور ایسے میں فلسطینیوں کی عملدآری پر سوال اٹھانا قابل قبول نہیں۔ چینی سفیر نے کہا کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت دینے سے مسئلے کے دو ریاستی حل کے لیے اسرائیل سے مذاکرات کرنے میں مدد ملے گی۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت فلسطین کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرنے کے مترادف ہوگی، واشنگٹن کا دعویٰ ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا فیصلہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ صحیح جگہ نہیں ہے اور یہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک معاہدے کے ذریعے حاصل کیا جانا چاہیے، دوسری جانب، امریکہ نے سعودی عرب سے وعدہ کیا ہے کہ اگر سعودی اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے رضامندی ظاہر کرتا ہے تو امریکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل کی کوشش کرے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .